قربان جاؤں اس عمر فاروق پے جب خلیفہ وقت بنے تو دریا نیل کی طرف کچھ لوگ ایک لڑکی کو دلہن بنا کر لے کر جارہے تھے عمر فاروق نے پوچھا اس بچی کو کہاں لے کر جارہے ہو ؟ لوگوں نے کہا امیر المؤمنین ہر سال اس دریا میں کسی نا کسی کنواری لڑکی کو دلہن بنا کر دریا کے بیچ میں کھڑا کرتے ہیں تب یہ دریا بہتا ہے ورنہ نہیں بہتا ۔
عمر فاروق نے کہا بچی کو واپس لے جاؤ بچی کا کیا قصور ہے ؟
ایک خط لکھ کر دیتا ہوں وہ دریا تک پہنچاؤ ۔
عمر فاروق نے لکھا اے دریا نیل میں عمر محمّد مصطفیٰ ﷺ کا غلام تجھے حکم دیتا ہوں اگر تو اللہ کی مرضی سے بہتا ہے تو ٹھیک ہے اگر تو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو تمہارے پانی کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں اللہ خود ہی ہمیں پانی پلائے گا ۔ عمر فاروق کا خط جیسے دریا کو ملا دریا نے بنا کسی دیر کے بہنا شروع کیا اتنا زور سے بہنے لگا کے پانی کناروں تک آ پہنچا.
یہی عمر فاروق ایک دفع مسجد نبوی میں ممبر نبی ﷺ پے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کے اچانک زمین کے اندر زلزلہ آگیا زمین ہلنے لگی عمر فاروق نے لوگوں کو یہ نہیں کہا کے مسجد سے باہر نکلو مسجد کہیں گر نا جاۓ نہیں نہیں عمر فاروق نے خطبہ والا عصا اٹھایا اس عصا کو زمین پے مار کر کہا خبردار ! اے زمین اگر عمر نے تجھ پے انصاف قائم نہیں کیا تو تجھے ہلنے کا حق ہے اور اگر عمر نے تجھ پے انصاف قائم کیا ہے تو تجھ کو ہلنے کا کوئی حق نہیں خدا کی قسم عمر فاروق کی لاٹھی زمین کو لگی زلزلہ تو بند ہوا مگر آج تک مدینہ میں زلزلہ نہیں آیا ۔ ایک دفع روم سے سفیر آگیا مدینہ میں پہنچ کر پتا کیا کے مسلمانوں کا بادشاه عمر کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا وہ تو بیت المال کے اونٹ چرانے جنگلے میں گئے ہوۓ ہیں روم کا سفیر حیران ہوا کے وقت کا وزیر اعظم ایسا بھی ہوتا ہے کیا ؟
عمر فاروق سے کچھ ملکی معاملات پے بات کرنی تھی سفیر ڈھونڈتے ہوۓ ایک درخت کے پاس پہنچا دیکھا کے عمر فاروق درخت کے نیچے لیٹ کر آرام فرما رہے تھے مگر جنگل کا ایک شیر ہے جو عمر فاروق کا پہرا دے رہا ہے روم کے سفیر پر جب شیر کی نظر پڑی تو شیر کے دھاڑنے کی آواز سنائی دی روم کا سفیر چلانے لگا اتنے میں عمر فاروق کی آنکھ کھل گئی پوچھا کیا بات ہے کیوں چلا رہے ہو ؟
سفیر نے واہ عمر تیری حکمرانی کے جنگل کے شیر بھی تیری ڈیوٹی دے رہے ہیں اس پر عمر فاروق نے ایسا جملہ کہا کے سونے کی تار سے لکھا جاۓ پھر بھی کم ہے فرمایا جو بھی ہمارے نبی محمّد مصطفیٰ ﷺ کی غلامی اختیار کرتا ہے اسکی قدر جنگل کے جانور بھی پہنچانتے ہیں روم کے سفیر نے بات چیت کی اور چلا گیا. دوسرے دن صبح ہوئی عمر فاروق پانی کے مشکیزے بھر بھر کے غریبوں کے دروازے پے پانی پہنچا رہے تھے تو نوکروں نے کہا کے امیر المؤمنین خزانے سے ہم بھی تنخواہ لیتے ہیں آپ حکم کرو ہم پانی بھر لیتے ہیں اس پے عمر فاروق نے کہا برابر آپ ٹھیک کہہ رہے ہو مگر کل روم کا سفیر آیا اس نے میری تھوڑی تعریف کردی اس سے میرے نفس میں کچھ زیادتی آگئی اب غریبوں کا پانی بھر کے اپنے نفس کو سزا دے رہا ہوں کے عمر تو تو بادشاه نہیں تو تو غریبوں کا غلام ہے ۔
عمر فاروق نے کہا بچی کو واپس لے جاؤ بچی کا کیا قصور ہے ؟
ایک خط لکھ کر دیتا ہوں وہ دریا تک پہنچاؤ ۔
عمر فاروق نے لکھا اے دریا نیل میں عمر محمّد مصطفیٰ ﷺ کا غلام تجھے حکم دیتا ہوں اگر تو اللہ کی مرضی سے بہتا ہے تو ٹھیک ہے اگر تو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو تمہارے پانی کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں اللہ خود ہی ہمیں پانی پلائے گا ۔ عمر فاروق کا خط جیسے دریا کو ملا دریا نے بنا کسی دیر کے بہنا شروع کیا اتنا زور سے بہنے لگا کے پانی کناروں تک آ پہنچا.
یہی عمر فاروق ایک دفع مسجد نبوی میں ممبر نبی ﷺ پے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کے اچانک زمین کے اندر زلزلہ آگیا زمین ہلنے لگی عمر فاروق نے لوگوں کو یہ نہیں کہا کے مسجد سے باہر نکلو مسجد کہیں گر نا جاۓ نہیں نہیں عمر فاروق نے خطبہ والا عصا اٹھایا اس عصا کو زمین پے مار کر کہا خبردار ! اے زمین اگر عمر نے تجھ پے انصاف قائم نہیں کیا تو تجھے ہلنے کا حق ہے اور اگر عمر نے تجھ پے انصاف قائم کیا ہے تو تجھ کو ہلنے کا کوئی حق نہیں خدا کی قسم عمر فاروق کی لاٹھی زمین کو لگی زلزلہ تو بند ہوا مگر آج تک مدینہ میں زلزلہ نہیں آیا ۔ ایک دفع روم سے سفیر آگیا مدینہ میں پہنچ کر پتا کیا کے مسلمانوں کا بادشاه عمر کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا وہ تو بیت المال کے اونٹ چرانے جنگلے میں گئے ہوۓ ہیں روم کا سفیر حیران ہوا کے وقت کا وزیر اعظم ایسا بھی ہوتا ہے کیا ؟
عمر فاروق سے کچھ ملکی معاملات پے بات کرنی تھی سفیر ڈھونڈتے ہوۓ ایک درخت کے پاس پہنچا دیکھا کے عمر فاروق درخت کے نیچے لیٹ کر آرام فرما رہے تھے مگر جنگل کا ایک شیر ہے جو عمر فاروق کا پہرا دے رہا ہے روم کے سفیر پر جب شیر کی نظر پڑی تو شیر کے دھاڑنے کی آواز سنائی دی روم کا سفیر چلانے لگا اتنے میں عمر فاروق کی آنکھ کھل گئی پوچھا کیا بات ہے کیوں چلا رہے ہو ؟
سفیر نے واہ عمر تیری حکمرانی کے جنگل کے شیر بھی تیری ڈیوٹی دے رہے ہیں اس پر عمر فاروق نے ایسا جملہ کہا کے سونے کی تار سے لکھا جاۓ پھر بھی کم ہے فرمایا جو بھی ہمارے نبی محمّد مصطفیٰ ﷺ کی غلامی اختیار کرتا ہے اسکی قدر جنگل کے جانور بھی پہنچانتے ہیں روم کے سفیر نے بات چیت کی اور چلا گیا. دوسرے دن صبح ہوئی عمر فاروق پانی کے مشکیزے بھر بھر کے غریبوں کے دروازے پے پانی پہنچا رہے تھے تو نوکروں نے کہا کے امیر المؤمنین خزانے سے ہم بھی تنخواہ لیتے ہیں آپ حکم کرو ہم پانی بھر لیتے ہیں اس پے عمر فاروق نے کہا برابر آپ ٹھیک کہہ رہے ہو مگر کل روم کا سفیر آیا اس نے میری تھوڑی تعریف کردی اس سے میرے نفس میں کچھ زیادتی آگئی اب غریبوں کا پانی بھر کے اپنے نفس کو سزا دے رہا ہوں کے عمر تو تو بادشاه نہیں تو تو غریبوں کا غلام ہے ۔
اس عمر فاروق پے لاکھوں سلام۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment